ہر چیز مشترک تھی
ہر چیز مشترک تھی ہماری سوائے نام
اور آج رہ گیا ھے تعلق برائے نام
اشیائے کائنات سے نا آشنا تھا میں
پھر ایک اسم نے مجھے سب کے سکھانے نام
تب میں کہوں کہ سچا ہوں یک طرفہ عشق میں
وہ میرا نام پوچھے مجھے بھول جائے نام
وہ دلربا بھی تھی کسی شاعر کی کھوج میں
میں نے بھی پھر بتایا تخلص بجائے نام
محفل میں چپ بھی بیٹھوں تو پہچانتے ہیں لوگ
بدنام ہو کوئی تو کہاں تک چھپائے نام
لشکر بنا رھا ہوں جوانان عشق کا
جس میں بھی آگ ہے مجھے مل کر لکھائے نام
مَیں نام رکھ نہ پایا گل نَو شگُفتہ کا
حالانکہ شاخ گل نے ہزاروں سجھائے نام
تُو عشق پائے عشق کے مرنے کے بعد بھی
فارس ! مزارِ دل پہ ترا جگمگائے نام