Nida Ansari

Add To collaction

ہر چیز مشترک تھی

ہر چیز مشترک تھی ہماری سوائے نام
اور آج رہ گیا ھے تعلق برائے نام

اشیائے کائنات سے نا آشنا تھا میں
پھر ایک اسم نے مجھے سب کے سکھانے نام

تب میں کہوں کہ سچا ہوں یک طرفہ عشق میں
وہ میرا نام پوچھے مجھے بھول جائے نام

وہ دلربا بھی تھی کسی شاعر کی کھوج میں
میں نے بھی پھر بتایا تخلص بجائے نام

محفل میں چپ بھی بیٹھوں تو پہچانتے ہیں لوگ
بدنام ہو کوئی تو کہاں تک چھپائے نام

لشکر بنا رھا ہوں جوانان عشق کا
جس میں بھی آگ ہے مجھے مل کر لکھائے نام

مَیں نام رکھ نہ پایا گل نَو شگُفتہ کا
حالانکہ شاخ گل نے ہزاروں سجھائے نام

تُو عشق پائے عشق کے مرنے کے بعد بھی
فارس ! مزارِ دل پہ ترا جگمگائے نام

   2
0 Comments